بعض تاجروں کے واقعات بہت موٹیویشنل اور سبق آموز ھوتے ھیں۔
ایک دوست نے فون کیا کہ آپ سے ملنا چاھتا ھوں۔
میں نے عصر کی نماز میں قریبی ایک مسجد آنے کا کہا۔
نماز کے بعد اس نے اپنی معاشی تنگی کا ذکر کیا اور کہا۔کہ تنخواہ پر گذارہ نہیں ھوتا۔
میں نے پوچھا کہ آپ کی تنخواہ کتنی ھے؟
جواب دیا کہ پچیس ھزار۔
گھر میں خاندان کے کتنے افراد ھیں؟
جواب دیا کہ تین افراد ھیں۔
مکان ذاتی ھے یا کرایہ کا؟
جواب دیا کہ ذاتی ھے۔
مجھے حیرت ھوئی کہ پھر تو پجیس ھزار میں آسانی سے گذر بسر ھوجانی چاھئے۔
پوچھا ۔۔۔۔کیا آپ کے گھر میں کوئی سیریس بیمار ھے جس پر اخراجات زیادہ ھوتے ھیں؟
جواب دیا کہ نہیں الحمدللہ سب ٹھیک ھیں۔
آگے خود ھی گویا ھوا کہ دراصل میں نے کئی جگہوں پر بیسیاں ڈالی ھوئی ھیں۔
جس میں مجھے تنخواہ کا زیادہ تر حصہ دینا پڑتا ھے۔
آپ کوئی طریقہ بتائیں تاکہ میری آمدن بڑھ سکے۔
میں نے پوچھا کہ ڈیوٹی ٹائمنگ کیا ھے آپ کی؟
جواب دیا کہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک۔
دوسرے دن پر میٹنگ رکھی اسے بتایا کہ دیکھو میں آپ کو پیسے کمانے کا طریقہ اگر سمجھا بھی دوں لیکن اللہ تعالٰی نے آپ کو پیسے نہ دینے ھوں تو میرا طریقہ بتانا فضول ھے۔
پوچھا کیا مطلب؟
میں نے کہا کہ ،،،،میرے بھائی۔۔۔ اللہ تعالٰی تاجر کے پاس کبھی تو کسٹمرز ھی نہیں بھیجتے۔
کبھی کسٹمرز بھیج کر اور پیسے دے کر بھی اگر برکت اٹھا لیں تو بھی محنت کا اصلی پھل نہیں ملتا۔
آپ مجھ سے وعدہ کریں چند باتوں کا۔
تو میں گارنٹی دے سکتا ھوں کہ آپ کی کمائی بھی بڑھے گی اور اس میں برکت بھی ھوگی۔
نمبر ایک۔۔۔۔کبھی جھوٹ نہ بولیں ۔۔۔بھلے نقصان واضح نظر آرھا ھو۔
نمبر دو۔۔۔نماز کو وقت پر باجماعت پڑھیں بھلے کسٹمرز خوب زیادہ کھڑے ھوں۔
نمبر تین۔۔۔۔لڑائی جھگڑا اور بحث و مباحثہ نہ کریں بھلے آپ کا مد مقابل غلطی پر ھو۔
بلکہ اسے سمجھائیں ۔۔۔اگر نہ سمجھے تو یوں ھی چھوڑ دیں۔
نمبر چار۔۔۔۔صدقہ اور خیرات کا اھتمام کریں جبکہ زکوٰۃ کو تو فرض سمجھیں۔ بھلے کم ھی ھو۔۔
کہنے لگا کہ حضرت میں تو آپ سے کمائی کا طریقہ پوچھنے آیا تھا جبکہ آپ نے تو اصلاحی بیان سنا دیا۔
میں نے کہا کہ میرے بھائی یہ باتیں کاروباری اصول ھیں۔
اگر ان پر عمل کرسکتے ھو تو کاروبار آپ کیلئے ٹھیک ھے۔
اگر ان پر عمل نہیں کرسکتے۔۔تو میں نے آپ کو طریقہ نہیں بتانا۔۔۔۔۔تو ابھی سے بتادو کہ وعدہ کرتے ھو ان باتوں کا؟
تھوڑی بہت قیل و قال کے بعد آخر کار وہ ان وعدوں کی پاسداری پر راضی ھوگیا۔
لیکن مجھے اس سے ان وعدوں کے ایفاء کی امید نہ تھی۔
میں نے اسے کہا کہ آپ کو چھولے بنانے آتے ھیں؟
کہنے لگا کہ۔۔۔۔۔ ھاں۔
چھولے بنانا کونسا مشکل کام ھے۔
گھر والی تو بہت بہترین چھولے بناتی ھے۔
کہا کہ چلو میرے ساتھ۔۔
تھوڑے سےچھولے بازار سے خرید کر اسے دئیے اور ساتھ میں مصالحہ جات بھی۔
اس سے کہا کہ اللہ کا نام لیکر ان چھولوں کو بناؤ اور گھر والوں سے کہو کہ کل میں جیسے ھی گھر پہنچوں تو یہ چھولے بالکل تیار ھونے چاھئیں۔
کیوں کہ کل شام کو میں انہیں بازار میں فروخت کرونگا۔
کل کا دن گذرا۔
شام تک اس دوست سے گفتگو نہ رابطہ ھوسکا۔
اچانک رات نو بجے خیال آیا کہ اس دوست کے پاس جاکر چھولوں کی خبر لوں۔
فون کیا تو پتہ چلا گھر کے پاس گلی کی نکڑ میں کھڑا چھولے بیچ رھا ھے۔
میں اس کے پاس پہنچا تو پریشان کھڑا تھا۔
پوچھا کیا ھوا؟۔۔ پریشان کیوں ھو؟
جواب دیا چھولے کافی سارے بچ گئے ھیں۔
حالانکہ میں عصر کی نماز کے فورا بعد آگیا تھا۔
اورابھی ساڑھے نو بج رھے ھیں۔
میں بھی غمگین ھوا اور اس سے کہا کہ لاؤ وہ سارے پیسے جو آج تمہاری سیل ھوئی ھے۔
اس نے سیل والے سارے پیسے الگ رکھے تھے۔
گننا شروع کیا تو چھولوں اور دیگر سامان کی رقم بھی پوری ھوگئی اور چھ سو روپے بچت بھی ھوگئی تھی۔
اسے بھی حیرت ھوئی کہ میں تو اتنی رقم سے بے خبر تھا۔
میں نے اس سے سوال کیا کہ نمازوں کو وقت پر پڑھنے کا اھتمام کیا تھا؟
کہنے لگا کہ ۔۔۔۔جی ھاں۔۔۔
آپ نے پکا وعدہ جو لیا تھا نمازوں کا۔
میں نے جھوٹ بولنے سے بھی تو منع کیا تھا۔
کہنے لگا کہ ھاں ۔۔۔۔لیکن بہت تکلیف ھورھی تھی کیوں کہ جھوٹ کی عادت ھے۔
میں نے کہا ۔۔۔۔کچھ دن سچ کی پریکٹس کرو بعد میں سچ بول کر سکون ملے گا اور جھوٹ سے تکلیف ھوگی۔
کہنے لگا کہ اب ان چھولوں کا کیا کروں۔
میں نے کہا کرنا کیا ھے۔
جو بک گئے وہ تو بک گئے۔
باقی کا ایسا کرو کہ کچھ خود کھا لو ۔۔۔گھر والوں کو کھلاؤ۔۔۔اور کچھ صدقہ کردو۔
کہنے لگا واہ مولانا صاحب۔۔۔
میں تو بلا وجہ پریشان تھا حالانکہ آج تو بیکری بھی خوب ھوئی بچت بھی خوب اور صدقہ بھی ھوگیا۔۔
دن گذرتے گئے۔
کچھ دنوں تک مصروفیت کیوجہ سے اس کے پاس نہ جاسکا۔
ایک دن اچانک خیال آیا کہ اس دوست کا پتہ کروں کیا حال ھے۔
اس کے ٹھیے پر پہنچا تو وہ نظر نہ آئے۔
حیران ھوا کہ یااللہ کہاں چلا گیا یہ بندہ۔
یہ تو کمائی کا وقت ھے۔
قریب سے آواز آئی۔۔۔۔مولانا صاحب۔
دیکھا تو ایک بہترین ریڑی کھڑی ھے۔۔۔جس میں بڑے سلیقے سے چھولے اور دیگر سامان کھٹائی اور مصالحہ جات وغیرہ الگ الگ خوبصورت برتنوں میں رکھے ھوئے ھیں۔
بڑی حیرت ھوئی کہ یہ بندہ تو پروفیشنل چھولے والا بن گیا ھے۔
مولانا صاحب آپ ھی کا انتظار تھا۔
مجھے یقین تھا کہ آج آپ نے آنا ھے۔
میں نے کہا کہ آپ کو کیسے یقین ھوگیا تھا؟
کہنے لگا کہ دراصل انسان کو نیکی کرنے کا اتنا مزا نہیں آتا جتنا اس کا پھل دیکھنے کا شوق ھوتا ھے۔
مجھے یقین تھا کہ آج آپ اپنے بوئے بیج کا پھل دیکھنے آئیں گے۔
اب آپ یہ مارکر لیں اور اپنے ھاتھ سے اس پر ''ماشاءاللہ چھولے چاٹ ''لکھ لیں ۔۔سنا ھے آپ کا خط بہت خوبصورت ھے۔
میں نے مارکر لیا اور ریڑھی ھی پر لٹکے ھوئے پینا فلیکس پر ڈبل لکھائی سے نام لکھ کر دیا۔
کافی لوگ جمع ھوگئے تھے۔ جو لکھائی دیکھنے آگئے تھے۔
ریڑھی کا واقعہ اس نے سنایا کہ مجھے اس کی شروع دن سے تلاش تھی لیکن میں چاھتا تھا کہ اسی بچت سے ریڑھی خریدوں۔
دو دن قبل ھی ریڑھی خریدی ھے۔
ماشاءاللہ خوب سیل ھورھی ھے۔
لیکن قیمت کیا رکھی ھے آپ نے۔
اس نے کہا کہ خود ھی دیکھ لیں۔
اتنے میں میں نے نوٹ کیا کہ جو جو لوگ آرھے ھیں ان سے چھولوں کا پندرہ اور دس روپے لیتا ھے۔
پوچھا کہ اتنے سستے کیوں؟
کہنے لگا مولانا صاحب یہ غریب لوگ ھیں۔
پہلے دس روپے اور پندرہ روپے والے جو گاھک بھی آتے تھے تو میں انہیں واپس کردیتا تھا۔
بعد میں نوٹ کیا کہ ایسے ھی لوگ ھی زیادہ آتے ھیں جو دس اور پندرہ روپے کے چھولے خریدنا چاھتے ھیں۔
چھولے والا کہتا ھے کہ۔
میں نے چھولوں حساب لگایا۔۔۔۔۔
کہ دس روپے میں چھولے دے کر بھی مجھے بچت ھوھی جاتی ھے۔
ویسے بھی تو آخر میں چھولے بچ ھی جاتے ھیں۔ سوچا صدقہ بھی ھوجائے گا اور ان کو چھولے بھی سستے مل جائیں گے۔
یہ لوگ چھولے دس روپے کے لیجاکر گھر میں روٹی کے ساتھ کھا لیتے ھیں۔
کچھ دن بعد وہ ساتھی فون کرتا ھے کہ مولانا صاحب واقعی آپ کے اصول کارگر ھوئے۔
پوچھا کیسے؟
کہنے لگا کہ میں جس دکان کے سامنے ریڑھی کھڑی کرتا تھا وہ ایک بیکری والا تھا۔
اس نے میری عادات کو نوٹ کیا اور کچھ دن بعد مجھے آفر کی کہ آؤ میں تمہیں بیکری کسی پوش علاقے میں کھول کردوں۔
میں کافی عرصہ سے ان خصوصیات کے حامل شخص کی تلاش میں تھا۔ جو آپ میں ھیں۔
چھولے واے نے کہا کہ۔
پہلے تو میں نے اس آفر کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
لیکن اس بیکری والے کی مالی صحت دیکھ کر اندازہ ھوا کہ اسے مجھ سے دلچسپی نہیں بلکہ اسے واقعی انہیں اوصاف کی تلاش ھے اپنی تجارت کیلئے۔
ایسا آدمی مجھے فائدہ ھی دے گا۔
کیوں کہ یہ خود بھی انہیں اوصاف کا حامل ھے۔۔
میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور حامی بھر لی
آج مجھے میری نمازوں اور سچ کا بدلہ اس دنیا میں ھی ملا ھے۔
لیکن مجھے اس سے زیادہ آخرت میں اس صلے کی ضرورت ھے۔
آج وہ چھولے والا ساتھی گلی کی نکڑ میں تو نہیں ھوتا لیکن اس کی یادیں وھیں پر ھیں۔
جب بھی وھاں سے گذرتا ھوں تو اس کی ایمانداری مجھے آواز دے رھی ھوتی ھے کہ مولانا صاحب۔۔مجھ سے ملتے رھا کریں۔
اس چھولے والے نے اس کے بعد اپنی جاب چھوڑ دی۔
اپنی تجارت شروع کرلی ھے۔
آج وہ اپنی طرح کئی لوگوں کو جاب دے رھا ھے۔
اور ایک کامیاب تاجر کی زندگی گذاررھا ھے۔
مولانا موسی خان