درجن تیرہ
ایک دفعہ پنجاب یونیورسٹی میں بزنس کے طالب علموں کو بزنس پر تحقیق کرنے کو کہا گیا ۔ تحقیق کی غرض سے طالب علم انارکلی لاہور میں گئے وہاں پر انہوں نے دیکھا کہ ایک جوس شاپ(حافظ جوس شاپ) پر رش لگا ہوا ہے ۔ جب وہ اس شاپ پر پہنچے تو انہیں پتا چلاوہ ایک جوس کے گلاس کے ساتھ ایک چھوٹا گلاس فری دیتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ جب ہم کوئی بھی مشروب کسی دوکان سے لے کر پیتےہیں تو پینے کے بعد تھوڑی تشنگی رہ جاتی ہے اگر دوگھونٹ اور پی لیے جائیں تو وہ تشنگی ختم ہو جاتی ہے۔ جوس شاپ والے لوگوں کی اس تشنگی کو دیکھتے ہوئے چھوٹاگلاس فری دے رہے تھے ۔ طالب علموں نے شاپ والوں سے اس فلسفے کے بارے میں پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے بتایا ہم نے یہ فلسفہ چھوٹے سے تجربے سے سیکھا ہے ۔ وہ تجربہ یہ ہے کہ دنیا میں ایک درجن میں بارہ ہوتے ہیں ہم نے اس کو تیر ہ کر دیا جب سے ہم نے درجن تیرہ کیے ہیں ہماری سیل میں اضافہ ہوگیا ۔ گورااس فلسفے کو Its theory of run one mile more کہتا ہے ۔ اس فلسفے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو سیر کی بجائے سواسیر کرتے ہیں ۔ کام میں ریٹرن کرتے ہیں ۔ کام کا معاوضہ زیادہ دیتے ہیں۔ کام کے ساتھ شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ لوگوں کی زندگیوں میں ویلیوز لے کر آتے ہیں ایسے لوگ زیادہ ترقی کرتے ہیں ۔آج کی تاریخ لکھیں اور درجن تیرہ کے فلسفے کو اپنی زندگی میں شامل کریں پھر ایک سال بعد دوبارہ اس کاپی کو دیکھیں جس پر تاریخ لکھی ہوگی تو آپ کو پتا چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں کتنی آسانیاں اس درجن تیرہ کی وجہ سے شامل کردیں ۔
نوجوانوں کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ انہوں نے بہت بڑے کام نہیں کرنے بلکہ چھوٹے کام کرنے ہیں لیکن کمال کے کرنے ہیں ۔نوجوان ٹیچر یہ طے کر لیں کہ بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرنی ہے ، ان کو مویٹویٹ بھی کرنا ہے اور ان کو اپنے ساتھ کھانے میں بھی شامل کرنا ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اچھی باتیں کرنے کو تبلیغ سمجھتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ لفظوں سے زیادہ کردار کی تبلیغ ہےیہ درجن تیرہ ہے ۔ جب تک ہر شخص اپنے درجن تیرہ نہیں کرے گا ترقی ممکن نہیں ہوگی ۔ بندہ زندگی کا ایک حصہ مختلف جگہوں پر سیکھتا رہتا ہےپھر ایک ایسا آتا ہے جو کچھ اس نے سیکھا ہوتا ہے ان کو آپس میں جوڑتا ہے پھر جا کر ایک تصویر بنتی ہے ۔ہم ایک دم سے تصویر بنانا چاہتےہیں۔قابل لوگوں کی مثال طوفان ہوتے ہیں،قابل لوگوں کی مثال دریا ہوتے ہیں،قابل لوگوں کی مثال سمندر ہوتا ہے،قابل لوگوں کی مثال خوشبو ہوتی ہے، قابل لوگوں کی مثال خنکی ہوتی ہے، قابل لوگوں کی مثال ٹھنڈی ہوا ہوتی ہے۔ قابل لوگ اپنا راستہ بنا لیتے ہیں ، وہ رکتے نہیں ہیں ، ان کے راستے میں مشکلات آتی ہیں، تنقید ہوتی ہے، چیلنجز آتے ہیں ، لوگ باتیں کرتے ہیں لیکن وہ اپنے سر کو جھکائے چلتے رہتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ منزل ان کے سامنے ہوتی ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق ہم 65 فیصد اپنے ماضی میں رہتے ہیں 30فیصد مستقبل میں رہتے ہیں اور 5 فیصد اپنے حال میں رہتے ہیں ۔عقل مند اور کامیاب وہ ہوتا ہے جو حال میں ہوتاہے لیکن اس کی نگاہ مستقبل پر ہوتی ہے ۔عقل مندی یہ ہے کہ چلا تو آج میں جائے لیکن نگاہ دور کی ہونی چاہیے ۔ دنیا میں بڑے لوگ ،بڑے ادارے ، بڑی قومیں ، بڑے ملک وہ ہوتے ہیں جن کا ویثرن ہوتا ہے ۔وہ تمام لوگ جو صرف آج کے لیے جیتے ہیں ان کا آنے والا کل مشکل ہو جاتا ہے ۔ اگر وقت پر بڑے فیصلے اور ویثر ن والے فیصلے نہ کیے ہوں تو پھر آنے والا وقت مشکل ہوجاتا ہے ۔ ہماری قوم کے زوال کی ایک بہت بڑی وجہ "دیہاڑی" کافلسفہ ہے ۔ہم لوگ آج کے دن کو سوچتے ہیں اور آج کے دن کے لیے ہی کماتے ہیں ۔ہم آنے والے کل کے لیے کچھ ایسا نہیں کرتے جو کل کو فائدہ دے ۔ایک شخص ایسی میڈیسن بیچا کرتا جس کے لیے اسے مارکیٹنگ نہیں کرنی پڑتی تھی کسی نے پوچھا آپ یہ میڈیسن کیوں بیچ رہے ہیں اس نے جواب دیا یہ مجھے بیچنی نہیں پڑتی یہ خود ہی بک جاتی ہے ۔ اس سے پوچھا اگر کل کو وقت بدلا تو پھر کیا کرو گے تو ا س نے جواب دیا کل آئے گا تو دیکھا جائےگا ۔جب وقت بدلا اس میڈیسن کی جگہ کسی اور میڈیسن نے لے لی اس وقت اس نے میڈیسن بیچنے کی کوشش کی تو وہ نہ بکیں پھر اس نے لوگوں اورسسٹم کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ سٹیفن کوؤئے کہتا ہے کہ ایک شخص نے صبح کےوقت ایک بوڑ ھے با بے کو دیکھا جو درخت کاٹ رہا تھا شام جب وہ شخص پھر اسی جگہ گزرا تو اس نے دیکھا کہ وہ بوڑھا ابھی بھی درخت کاٹ رہا ہے ۔ اس نے بابا جی سے پوچھا بابا جی ابھی تک درخت نہیں کٹا بابا جی نے کہا میرا آرا تیز نہیں ہے ۔ اس شخص نے کہا با با جی اس کو تیز کر لیں بابا جی نے جواب دیا بیٹا میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے ۔یعنی پور ا دن برباد کر دیا لیکن تیاری نہیں کی ۔ وہ لوگ جو اپنی صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہیں وہ درجن تیر ہ کے فلسفے پر چلے جاتے ہیں ۔
درجن تیرہ کے فلسفے پر جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے رضا ہونے پر یقین ہونا چاہیے ۔ دنیا کے مطابق اگر آپ بانٹے گے تو وہ کم ہو جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کے نظام کے مطابق میں باٹنے سے بڑھ جاتا ہے ۔ باٹنے والے کا علم بھی بڑھتا ہے ، دولت بھی بڑھتی ہے ، فہم بھی بڑھتا ہے، آسانیاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کرم بھی بڑھ جاتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کو اتنا محدود دیکھ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے درجن تیر ہ کے فلسفے پر نہیں جاتے ۔ ہمارے بچے ہماری نصیحتوں پر عمل نہیں کرتے وہ ہماری حرکات کو دیکھ کر عمل کرتے ہیں۔اگر والدین کے درجن تیرہ ہیں تو بچوں کے بھی درجن تیرہ ہوں گے۔جیب تنگ ہونے کا دل کے تنگ ہونے سے تعلق نہیں ہے ۔ جیب تنگ ہو سکتی ہے دل کوتنگ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دل تنگ ہوگا تو پھر درجن تیرہ نہیں ہو سکتا۔تقسیم کا رواج گھروں سے ہونا چاہیے ۔ہمارے ہاں جن کے معاشی حالات اچھے ہیں ان کے بھی درجن تیرہ نہیں ہیں ۔ سخاوت مال سے نہیں دل سے ہوتی ہے۔ اگر دل بڑا ہے تو مال کم بھی ہو گا تو سخاوت کم نہیں ہوگی۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "ایسا انسان جو بخیل ہے اس کے پاس مال آ جانا ایک عذاب ہے۔"دنیا میں بڑے لوگ مال جمع کرتے ہیں لیکن ان کا مال نالائق اولاد کے کام آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ مال اپنی اولاد پرنہیں لگایا ہوتا ۔باباجی اشفاق احمدؒ فرماتے ہیں "جو آپ دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں دیتے ہیں ۔"اس دنیا میں انسان صرف آتا ہے اور جاتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے میں سے دے رہا ہوتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بانٹتا رہتا ہے اور مال بڑھتا رہتا ہے ۔ آج جتنے انسان زمین کے مالک بن کر بیٹھے ہوئے ہیں وہ ذرا چند سال پیچھے جائیں تو پتا چلے گا کہ وہ زمین ان کی نہیں تھی ان سے پہلے کسی اور کی تھی اور ان کے جانے کے بعد کسی اور کی ہو گی۔ جس طرح انسان کا انتقال ہوتا ہے اس طرح زمین کا بھی انتقال ہو جاتا ہے ۔ اگر اس فلسفے کو سمجھ لیا جائے ہم نے صرف اس دنیا میں آنا اور جانا ہے تو پھر تقسیم کرنے میں کیا حرج ہے ۔ آج سے طے کر لیں کہ آپ نے کسٹمر کیئر کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہے ۔ ہمارے پانی پلانے میں بھی تہذیب ہونی چاہیے ، چائے کا کپ پلانے میں بھی محبت ہونی چاہیے، ہم کسی کا شکریہ ادا کریں تو اس کو منہ پر نہ ماریں ۔اگر رویوں میں درجن تیرہ آجائے تو زندگی میں سکون آنا شروع ہو جائے گا۔ درجن تیرہ کا ایک مطلب اور بھی ہے حقدار کو حق سے زیادہ دینا ۔ یہ مزاج اپنائے بغیر ترقی نہیں ملے گی ۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ جو آسانیاں پیدا کرتےہیں اللہ تعالیٰ ان کی زندگیوں میں زیادہ آسانیاں پیدا فرما دیتا ہے ۔