پاکستان کے بڑے شہروں میں سیوریج کے پانی سے تیار کردہ سبزیاں بیچی جا رہی ہیں جو انتہائی طور پر مضر صحت ہیں۔ ان شہروں میں خاص طور پر کراچی ، کراچی کے علاقے ملیر میں تو اس قسم کے فارم گٹر باغیچہ کے نام سے مشہور ہیں۔ کراچی کے علاوہ اسلام آباد روالپنڈی، لاہور ،گوجرانوالا میں بھی ذیادہ سبزیاں ان گٹر باغیچوں میں تیار کردہ سپلائی کی جارہی ہیں۔ عام گھریلو سیوریج لائینوں کا پانی تو کھاد کا کام کرتا ہے، لیکن جب ان میں فیکٹریز سے نکلنے والا پانی شامل ہوتا ہے تو ان میں انتہائی مضر صحت کیمیکل شامل ہوجاتے ہیں جو مختلف اقسام کے خطرناک کمیکلز پر مشتمل ہوتے ہیں،جو اگر انسانی جسم میں داخل ہوجائیں تو کینسر،السر، ہیپاٹائیٹس اور دیگر خطرناک بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں؛اسلیئے آپ کوششش کریں کے آپ سبزیاں اپنے گھر میں اگائیں، ججو کے کو مشکل کام نہیں ہے۔آپ گملوں میں، پرانے ٹب میں، اگر آپ کے پاس کھلا صحن ہے تو وہاں بھی آپ چھوٹا سا گارڈن بنا کر سبزیاں لگا سکتے ہیں؛آپ گھر میں با آسانی ٹماٹر، ہری مرچیں، پیاز، بھنڈی، بیگن، لیمو، ہرا دھنیا ، پودینہ اور بیلوں میں آپ توری، لوکی ،سیم، کریلا،مٹر لگا سکتے ہیں؛آپ بیلیں چینی کی خالی بوریوں میں مٹی ڈال کر لگا سکتے ہیں۔ اچھے اور عمدہ قسم کے بیج آپ نزدیکی سبزی منڈی سے لے سکتے ہیں؛ اسکے لیئے آپ کو بالو مٹی کی ضرورت ہوگی وہ بھی با آسانی نرسیوں سے مل جاتی ہے،اور کھاد بھی؛ آپ 3 حصہ مٹی اور آیک حصہ کھاد لیں؛ پودوں کو وقت پر مناسب پانی اور دھوپ دیں؛ اور گھر یں تیار تازہ اور صحت سے بھرپور سبزیاں کھائیں: کچن گارڈننگ کو فروغ دیجئے۔ اور اپنی آنے والی نسل کو اس کی ترغیب دیجئے ۔۔
اپنے کچن گارڈن کی بغیر کھاد اور سپرے کی تیار شدہ سبزی واقعی بڑے مزے کی ہوتی ہے۔
گھر کے بیک یارڈ فرنٹ لان میں گملوں میں کیاریوں بالکونی اور چھت پر سبزیاں اُگانےکو کچن گارڈننگ کہتے ہیں ۔
کچن گارڈننگ میں ہم گھر میں آسانی سے زہریلی ادویات سے پاک سبزیاں اگاسکتے ہیں ۔ اور گارڈن سے گھر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں بازار سے مُضر صحت اور ادویات کے آسپرے والی سبزیوں کے استعمال سے بچنا چاہیے۔ 
ہم تھوڑی سی محنت سے گھر میں آسانی سے سبزیوں کو اُگا سکتے ہیں ۔
اس کے لئے ہمیں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ہے۔
اپنی آسانی کے مطابق وہ سبزیاں اُگانی چاہیےجن کا موسم ہو اور جو شوق سے گھر میں کھائی جاتی ہوں اور گارڈن بھی اتنا ہی بنائیں جس کی دیکھ بھال آپ آسانی سے کر پائیں۔
وہ جگہ منتخب کریں جہاں دھوپ چار سے آٹھ گھنٹے لگتی ہو۔
پھر جگہ کی تیاری کا مرحلہ آتا ہے اُس میں زمین کی باربار گوڈی کر کے زمین کو ایک فٹ گہرائی تک نرم کریں اور اس میں گوبر کی کھاد، پتوں کی کھاد اچھی طرح مکس کریں اور کیاریاں بنائیں۔ گوبر کی کھاد اچھی گلی سڑی ہونی چاہیے جتنی پرانی ہوگی اتنا زیادہ زمین کو زرخیز بنائے گی اور سبزیاں بھی اچھی اُگیں گیں ۔ 
پھر ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کونسی سبزیوں کی پنیری بنے گی اور اور کونسی ڈائیریکٹ لگیں گیں ۔
جن سبزیوں کی پنیری بنے گی ان میں موسم گرماکے میں 
ٹماٹر ، بینگن ، مرچ، شملہ مرچ ، کھیرا ، تربوز شامل ہیں ۔ 
اور باقی بھنڈی ، کدو، توری، کھیرا، ٹینڈا، لوکی ، کریلہ،اروی،دھنیہ،پیاز،آلو، ادرک ، ہلدی، وغیرہ ان کو ڈائیریکٹ لگائیں گے، 
کیڑوں اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے۔ کسی قسم کا۔ کیمیکل اسپرے استعمال نہیں کرنا۔ بلکے 
نیم کے بیج اور پتوں کا رس استعمال بہت فائدہ مند ہے۔ نیز تمباکو کا پانی، لہسن اور ادرک کا رس نکال کر ڈش واشنگ لیکیویڈ کو پانی میں مکس کر کے اسپرے بھی کر سکتے ہیں،
جب سبزیاں تیار ہوجائیں تو ان کو اُتار لینا چاہیے، لگے رہنے سے اسکی کوالٹی متاثر ہوگی،
گھر میں ٹماٹر اگانے کا طریق کار پیش ہے
۔ ٹماٹر کا پودا معتدل موسم میں پلتا بڑھتا ہے۔اگر درجہ حرارت 32 سینٹی گریڈ سے زیادہ یا 10سینٹی گریڈ سے کم ہو جائے،تو وہ صحیح طرح پرورش نہیں پاتا۔خصوصاً کہر یا پالا اسے تباہ کر دیتا ہے۔لہذا پودے کو کہر سے بچانا لازمی ہے۔ گرمی زیادہ ہو تو اس کا توڑ پودے کو زیادہ پانی دینا ہے۔تاہم پودے کو زیادہ نمی سے بھی بچائیے۔نمی اسے مختلف امراض کا نشانہ بنا ڈالتی ہے۔یاد رہے،نشونما پاتے پودے کو روزانہ کم ازکم چھ گھنٹے دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹماٹر کی 7500سے زائد اقسام وجود میں آ چکیں جن کے دو بڑے گروہ ہیں ۔غیر معین (Indeterminate) اور محدود (Determinate) ۔غیر معین اقسام اُگ کر مسلسل پھل دیتی ہیں تاایں کوئی بیماری یا کہر پودے کو مار ڈالےجبکہ محدود اقسام کے پودے صرف ایک دفعہ پھل دیتے اور پھر مر جاتے ہیں۔ آپ اپنی پسند کی قسم کا انتخاب کر سکتے ہیں۔اور اگر نوآموز ہیں ،تو بہتر ہے کہ شروع میں ایک دو پودے ہی لگائیے تاکہ تجربے سے جو اسباق ملیں ،ان کی مدد سے آپ خودکو مستند گھریلو کسان بنا سکیں۔ اب آئیے اُگانے کے مرحلے کی طرف!سب سے پہلے ا س گملے ،ڈبے،برتن،کریٹ،بالٹی وغیرہ کا انتخاب کیجیے جس میں پودا اگانا مقصود ہو۔اسے کم از کم 8 انچ گہرا ہونا چاہیے۔تاہم 16انچ گہرائی بہترین رہے گی۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ٹماٹر کا پودا پلاسٹک کے کسی ڈبے یا برتن میں لگائیے۔وجہ یہ کہ ایسا برتن گملے کے برعکس جلد نمی نہیں چوستا اور خشک ہونے میں دیر لگاتا ہے۔چونکہ ٹماٹر کا پودا پانی پسند کرتا ہے،لہذا وہ اس میں پنپتا ہے۔دوسرے پلاسٹک کے چھوٹے برتن عموماً گملوں کی نسبت سستے پڑتے ہیں۔ جب موزوں ڈبے یا برتن کا انتخاب کر لیں ،تو اس کا پیندا دیکھیے۔اگر اس میں سوراخ نہ ہوں ،تو چھوٹے چھوٹے چھ سات سوراخ کر دیجیے تاکہ مٹی میں پانی کھڑا نہ ہو۔جمع شدہ پانی پودے کو سڑا کر مار ڈالتا ہے۔تاہم سوراخ اتنے بڑے نہ ہوں کہ ساراپانی مٹی میں جذب ہوئے بغیر نکل جائے۔ اب ڈبا کھاد ملی مٹی سے بھر دیجیے۔پودے اگانے والی مٹی ہر نرسری سے مل جاتی ہے۔ڈبے میں باغ یا زمین کی مٹی نہ ڈالئیے کیونکہ اس میں اتنی غذائیت نہیں ہوتی کہ پودا پنپ سکے۔ یہ کام تکمیل پائے ،تو بیج بونے کا مرحلہ آتا ہے۔ٹماٹر کی من پسند قسم کے بیج بڑی نرسریوں سے مل سکتے ہیں۔راقم کے ایک دوست نے تو انوکھا گُر آزمایا۔انھوں نے ڈبے میں کھاد ملی مٹی بھری،اور اس میں عام ٹماٹر بو دیا۔ڈبا پھر کھڑکی پہ رکھ دیا تاکہ اسے دھوپ ملتی رہے۔پانی بھی باقاعدگی سے دیا گیا۔دو ہفتے بعد ٹماٹر سے پودا نکل آیا۔اب وہ موسم پہ رس بھرے پھل دیتا ہے۔ موسم سرما میں خصوصاً بیجوں سے پودا نکالنے کا یہ طریق بھی مروج ہے کہ پہلے انھیں چھوٹے سے گملے میں بویا جائے۔تاکہ جب سورج نکلے تو اسے باآسانی دھوپ کے سامنے رکھ سکیں ۔ورنہ وہ گرم کمرے میں ہی رہے۔جب پودا نکل آئے اور تھوڑا بڑا ہو چکے،تو پھر اسے بڑے ڈبے یا گملے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ ٹماٹر کا پودا خاصی نگہداشت مانگتا ہے۔نشونما پاتے ہوئے اسے کافی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔پانی دینے کا وقت جاننے کا آسان طریق یہ ہے کہ ڈبے یا گملے میں انگلی ڈالئیے۔اگر دو انچ تک مٹی خشک ملے،تو گویا پانی دینے کا سمّے آ پہنچا۔ دوسری اہم بات یہ کہ بڑھتے پودے کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔لہذا جب پودا پرورش پانے لگے،تو ڈبے میں بانس یا ڈنڈا نصب کیجیے اور اسے اس کے ساتھ پودا نرمی سے باندھ دیجیے تاکہ وہ بلند ہو سکے۔بانس مٹی میں گاڑتے ہوئے احتیاط کیجیے کہ وہ پودے کی جڑوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ٹماٹر کا پودا آٹھ فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ بڑھتے پودے کو خاصی غذائیت بھی درکار ہوتی ہے۔سو بہتر ہے کہ ہفتہ دس دن بعد ڈبے میں مناسب کھاد ڈال دیں۔یوں پودا تیزی سے نشوونما پائے گا۔ بڑھتے پودے کے جو پتے زرد ہو جائیں،انھیں توڑ ڈالئیے۔نیز بالائی شاخوں کو چھوڑ کر نیچے اگر ٹہنیاں نکلیں،تو انھیں بھی کاٹ دیں۔یوں پودے کے مرکزی تنے کو زیادہ غذائیت ملتی ہے اور وہ جلد بڑا ہوتا ہے۔ ٹماٹر کی قسم کے لحاظ سے پودے پر تین تا پانچ ماہ میں پھول نکل آتے ہیں۔چونکہ پودے پہ پولی نیشن(زیرگی)سے پھل لگتا ہے،لہٰذا بہتر ہے کہ پھول نکلنے کے بعد تین چار بار ڈبے کو ذرا زور سے ہلا دیں،تاکہ پھولوں کے نر و مادہ حصّے مل جائیں۔ پھول نکلنے کے بعد پودے کو پانی دینا کم کر دیں۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ہفتے تک صرف صبح ایک گلاس پانی دیں۔جب پھول پہ پھل نمودار ہوں،تو تب موسم کے اعتبار سے پانی دیجیے۔ صوبہ پنجاب اور سند ھ کے ہم وطن معتدل موسم والے مہینوں مثلاً اپریل مئی اور ستمبر میں ٹماٹر کے پودے لگا سکتے ہیں۔یوں انھیں نشوونما پانے کی خاطر مناسب ماحول ملتا ہے۔پھر تین چار ماہ بعد آپ گھر میں اگے رس بھرے،سرخ ٹماٹر کھا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ شروع میں غلطیاں کرنے کے باعث آپ کو کامیابی نہ ملے۔مگر حوصلہ نہ ہارئیے ،بلکہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر دوبارہ پودے اگایئے۔نیز ماہر باغبانوں اور مالیوں سے مشورہ کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔تھوڑے سے صبر اور محنت سے آپ بھی ماہر باغبان بن سکتے ہیں۔
کچن گارڈننگ میں استعمال ہونے والے برتنوں کا انتخاب:
گھر میں سبزیاں لگاتے ہوئے یہ خیال رہے 
کہ وہی سبزی سب سے پہلے لگائیں 
جو آسانی سے لگا سکیں ۔
پہلے دوچار سبزیوں سے ابتدأ کریں ۔
کامیابی ہوجائے تو تعداد بڑھادیں ۔
باغبانی کے دوران ہر قسم کی ساخت کے برتن استعمال ہوسکتے ہیں۔
مارکیٹ میں مختلف پودوں کے لئے مختلف ساخت کے برتن دستیاب ہوتے ہیں ،
جیسے پلاسٹک پوٹ ،کلے پوٹ ،کاپر پوٹ ،سریمک پوٹ ،ٹیرا کوٹا پوٹ ،دھاتی پوٹ ،لکڑی کے پوٹ ،فائبر گلاس پوٹ ،ہینگنگ باسکٹس وغیرہسبزیاں گانے کے لئے مٹی کے پوٹ اور لکڑی کے بکس بہترین ہیں ۔گھر میں استعمال نہ ہونے والے بیکار برتن، آئل اور کولڈڈرنکس کی بوتلیں، پولیتھین بیگز، بیکار پرس اور بیگز، استعمال ہوسکتے ہیں۔جو بھی سامان پودا اگانے کے لئے لیا جائے اس میں پانی کے نکاس کا انتظام ہو ورنہ پانی رکنے سے پودا خراب جائے گاگھر میں ذرا ایک بار نظر دوڑائیں پودے لگانے کے لئے بہت سا سامان گھر میں سے ہی مل جائے گا جس کو اکثر فالتو سمجھ کر اسٹور یا کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔آپ اس بیکار سامان میں پودے لگا کر اس کی قدروقیمت میں چار چاند لگا سکتے ہیں۔ لو جی بس قافی ہے