آج اسلام دنیا کی ضرورت بن گیا ہے اور مروجہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی سسٹم کی ناکامی کے بعد اب آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف رجوع کیے بغیر نسل انسانی کے پاس کوئی چارہ کار نہیں رہا، جبکہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی اگر محفوظ حالت میں کسی مذہب کے پاس موجود ہیں تو وہ صرف اسلام ہے، لیکن کنفیوژن اس بات نے پیدا کر رکھا ہے کہ کتابوں میں جو اسلام ملتا ہے اس کا موجودہ مسلمانوں کی زندگیوں اور معاملات سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا کو ضرورت دراصل کتابوں والے اسلام کی ہے، خلفاء راشدین والے اسلام کی ہے، ہماری زندگیوں والے اسلام کی نہیں، کیونکہ ہمارا یہ برائے نام اسلام تو ہمیں مشکلات و مسائل میں سہارا نہیں دے رہا، دنیائے انسانیت کے مسائل کیا حل کرے گا؟
برصغیر کی تحریک آزادی کے عظیم راہنما مولانا عبید اللہ سندھیؒ جب ماسکو گئے اور کمیونسٹ لیڈروں سے اسلام کے فلسفۂ حیات اور نظام زندگی پر بات کی تو ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ فلسفہ اور سسٹم دنیا میں کسی جگہ عملاً رائج بھی ہے؟ مولانا سندھیؒ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، اور یہی بات اسلام کے فروغ اور دنیا میں اس کے دوبارہ غلبہ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔